محمد حسین آزاد، احوال و آثار
مصنف: ڈاکٹر محمد صادق
صفحات:269
قیمت: 300 روپے
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور
اردو ادب کی ترویج اور ترقی میں بہت سی شخصیات نے مختلف ادوار میں اپنے اپنے انداز میں کردار ادا کیا، کچھ نے نثر کو میدان کے طور پر چنا اور کچھ نے شاعری پر توجہ دی، اسی طرح علوم شرقیہ کی بھی ترویج ہوئی۔
مولانا محمد حسین آزاد کا زمانہ یعنی انیسویں صدی بڑی ہی پرآشوب تھی کیونکہ اس دور میں مغل سلطنت کا زوال ہو چکا تھا اور انگریزوں نے پورے برصغیر پر اپنے پنجے پوری طرح گاڑھ لیے تھے۔ مسلمان یوں تو پہلے ہی معتوب تھے کیونکہ انگریزوں نے اقتدار انھی سے چھینا تھا مگر 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بالخصوص مسلمانوں پر دور ابتلا کا آغاز ہوا ۔ مولانا آزاد کے والد مولوی محمد باقر ایک اردو اخبار کے مالک تھے اور ابتدا سے ہی ہر طرح سے مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے یوں وہ انگریزوں کی نظر میں کھٹکتے تھے۔
جنگ آزادی کے بعد انھیں مختلف الزامات کے تحت گرفتار کر کے قید کر لیا گیا اور پھانسی دیدی گئی۔ مولانا آزاد اس دور میں اپنے اخبار میں بطور مدیر منسلک تھے، یوں وہ بھی معتوب ٹھہرے، مگر شومئی قسمت وہ بچ نکلے اور کافی عرصہ تک جان بچانے کے چکر میں سرگرداں رہے، یوں ان کی زندگی بڑی مشکلات سے دوچار رہی، مگر کیا کہتے ہیں حالات کی چکی میں پسنے کے بعد جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں تو مولانا آزاد نے بھی ہمت نہ ہاری اور بالآخر انھوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا ۔
زیر تبصرہ کتاب ان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کی تصانیف اور رجحانات کا بھی بڑے معروضی انداز میں تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور تحقیق کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ آخر میں ضمیمہ جات بھی دیئے گئے ہیں، گیارہ ابواب پر مشتمل اس کتاب کا قارئین کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ ایک عظیم ادیب کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے واقفیت حاصل کر سکیں۔
بحر الفصاحت (حصہ ششم و ہفتم) علم بدیع
مصنف: مولوی نجم الغنی رام پوری
مرتب: سید قدرت نقوی
قیمت:500 روپے
صفحات:488
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور
زبان کے قرینے اور سلیقے زانوئے تلمذ طے کرنے سے ہی آتے ہیں، سیکھنے کے یہ آداب ذوق و شوق سے ہی تعلق رکھتے ہیں ورنہ چل چلاؤ تو بہتوں کو آتا ہے۔ مجلس ترقی ادب نے بحر الفصاحت کے نام سے زبان کے قرینے سے ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو آگاہ کرنے کی شاندار کاوش کی ہے، زیر تبصرہ کتاب میں علم بدیع میں صنائع لفظی و معنوی سے بحث کی گئی ہے۔ سیوطی نے کہا ہے کہ بدیع کلام کی خوبی بعد رعایت مقتضائے حال اور وضوح الدلالۃ یعنی تعقید سے خالی ہونے کی معلوم ہوتی ہے۔
منفعت اس کی یہ ہے کہ کلام میں ایسی خوبی پیدا ہو جائے کہ کانوں کو بھلا معلوم ہو اور دل میں اتر جائے۔ ’’خیر البلاغت ‘‘ کے ایک رسالے میں لکھا ہے کہ علم بدیع وہ ہے جس سے کلام بلیغ کی عارضی خوبیوں کا حال معلوم ہو جاتا ہے۔ عبداللہ بن معتز عباسی نے علم بدیع کے قواعد بنائے اور اسے الگ علم کا درجہ دیا اور اپنی کتاب میں سترہ قسم کی صنائع لکھیں، پھر پیچھے آنے والے اس میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ ایک علمی بحث یہ بھی ہے کہ علم معانی اور بیان سے کلام میں حسن ذاتی آ جاتا ہے، پھر علم بدیع کو الگ علم کا درجہ کیوں دیا گیا؟۔
اسی لئے محاسن کو دیکھتے ہوئے کچھ محققین نے بدیع کو علم معانی اور بیان کا ہی حصہ قرار دیا۔ ایسی علمی مباحث ادب کی وسعت اور بڑائی میں اضافے کا سبب ہیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
درد جاں ستاں
مصنف: سید ناصر نذیر فراق دہلوی
مرتبہ: محمد سلیم الرحمٰن
قیمت:150 روپے
صفحات؛133
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور
ناصر نذیر فراق اپنے زمانے کے نامور نثر نگار رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ آج کی نسل ان کے بارے میں کم ہی جانتی ہے، جس کی وجہ ان کی تصانیف کا منظر عام پر نہ آنا ہے،انھوں نے افسانے، مضامین، لوک روایات، معاشرتی خاکے اور ناول لکھے، مجلس ترقی ادب نے ان کے اس ناول کو مرتب کروا کر ادب کی شاندار خدمت کی ہے ۔
یہ ناول پہلی مرتبہ 1909ء میں شائع ہوا تھا۔ ناول کی فضا اور زبان و بیان بھی اسی دور کے مطابق ہے، اندازہ ہے کہ یہ فراق کا پہلا ناول ہے۔ نامور ادیب محمد سلیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ناول کو سچا واقعہ قرار دے کر فراق نے پڑھنے والوں کو بڑے دبدھے سے دوچار کر دیا ہے ۔ تاہم اگر ناول نگار کے اس دعوے پر یقین کر لیا جائے کہ وہ سچے واقعات بیان کر رہا ہے تو طرح طرح کے سوال سر اٹھاتے ہیں اور ان کا کوئی تسلی بخش جواب ناول کے متن میں تلاش کرنا بے سود ہے۔ محترم سلیم الرحمٰن نے پیش لفظ میں اسی طرح ناول کا کڑا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور بہت سی ادبی مباحث کا راستہ کھول دیا ہے، بہرحال گم گشتہ ادب کی بازیابی مجلس ترقی ادب کی بہترین کاوش ہے۔
میں ہوں عمران خان
مصنف: فضل حسین اعوان
قیمت: 750روپے
صفحات: 256
ناشر: دعا پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور
عمران خان سپر سٹار کرکٹر ہیرو جنھوں نے 1992ء میں پاکستان کو کرکٹ کا عالمی کپ جتوایا، جو اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں، کی زندگی مسلسل جدوجہد کی شاندار مثال ہے۔ انھوں نے کھیل کی دنیا میں قدم رکھا تو اس کی آخری بلندی تک پہنچے اور سیاست کے خارزار میں پاؤں دھرے تو اس کی بھی سب سے اونچی سیٹ پر براجمان ہوئے۔
مصنف نے کتاب میں عمران خان کی زندگی کی بھرپور تصویر پیش کی ہے، بچپن سے لے کر کرکٹ کے میدان میں قدم رکھنے تک عمران کو تعلیمی میدان میں جو چیلنجز درپیش ہوئے اور عمران نے ان پر کیسے قابو پایا؟ کرکٹ میں کامیابی کے لئے انھیں کتنی محنت کرنا پڑی اور کیسے ناکامیوں کو کامیابی میں بدلا؟ اس دوران ان کی زندگی میں جو گلیمر در آیا اس کی وجہ سے انھیں کن سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کیسے ان سے عہدہ برآ ہوئے؟
عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیسے متحرک ہوئے؟ پھر آخر میں سیاست کے میدان میں پیش آنے والی مشکلات اور مخالفین کا پروپیگنڈا، ان سب کا سوالوں کا جواب دیا گیا ہے۔ عمران کے والد اکرام اللہ نیازی کی ایک تحریر بھی کتاب میں شامل ہے جو ایک باپ کے اپنے بیٹے کے بارے میں محسوسات کا اظہار تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ بجپن سے جوانی کی زندگی کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرنے سے ایک شاندار شخصیت کا تصور ابھرتا ہے جو ایک سچا اور کھرا انسان ہے اور ہمہ وقت جہد مسلسل کا پیکر ہے اور یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر لگن سچی ہو تو بالآخر منزل مل ہی جاتی ہے۔
میرا پاکستان
مصنف: مولانا محمد الیاس گھمن
صفحات: 127
قیمت : درج نہیں
ناشر :عالمی اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ
مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین ہیں اور میرا پاکستان ان کی تازہ تصنیف ہے جس میں انہوں نے وطن عزیز پاکستان کی تخلیق کے مقاصد، اس کے قیام کی غرض وغائت، اس کی تاریخ اور اس حوالے سے علما کا کردار کیا تھا، اس بارے میں اس چھوٹی سی کتاب میں بڑے موثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس کتاب کے مخاطب تو بظاہر مدارس کے طلبہ ہی ہیں لیکن یہ کتاب ہر پاکستانی خصوصاً ہماری نوجوان نسل، جس نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے بنتے نہیں دیکھا ان کے لیے یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ضرور پڑھا جانا چاہیے تاکہ اسے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ عظیم مملکت خداداد حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں کو کس قدر قربانیاں دینا پڑیں اور مشکلات و مصائب جھیلنا پڑے، آگ و خون کے دریا سے کس طرح گزرنا پڑا۔ لیکن جن عظیم مقاصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا وہ آج تک پورے نہیں ہو سکے۔ یہ لمحہء فکریہ ہے کہ قیام پاکستان کی منزل پانے کے بعد اپنی خواہشات، آرزووں اور آدرشوں کی روشنی میں آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔اس کتاب میں اس تمام صورت حال کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نوجوان نسل کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے ۔
شریف کنجاہی کے خطوط
مرتب : احسان فیصل کنجاہی
صفحات: 160
قیمت : 250/ روپے
ناشر: کامرانیاں پبلی کیشنز، کنجاہ، گجرات
شریف کنجاہی پنجابی زبان کے معروف ادیب، شاعر، مترجم، محقق اور استاد تھے۔ انہوں نے تمام عمر پنجابی زبان و ادب کی خدمت میں گزاری۔ دیگر علمی وا دبی کتب کے علاوہ قرآن مجید کا پنجابی میں ترجمہ بھی ان کا ایسا کارنامہ ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ زیر تبصرہ کتاب شریف کنجاہی کے ان ایک سو سے زائد خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مختلف لوگوں کو لکھے۔ خطوط نویسی الگ سے ایک صنف ِ ادب کا درجہ رکھتی ہے۔ مشاہیر کے خطوط اسی اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ جن سے نہ صرف متعلقہ شخصیت کو سمجھنے، اور اس کے فکر و فلسفہ، اس کی سوچ اور نظریہ حیات و فن تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے بلکہ۔ یہ خطوط اس عہد کی ادبی اور ثقافتی تاریخ بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔
احسان فیصل کنجاہی نے شریف کنجاہی کے خطوط کو منضبط کرکے کتاب کی شکل میں پیش کردیا ہے۔ تاہم پروف کی غلطیاں بعض مقامات پر مزہ کرکرا کردیتی ہیں ۔کتاب کی اشاعت بلا شبہ ایک بڑا کام ہے اور اس نوعیت کے بڑے کام کے لیے عرق ریزی اور محنت بھی اسی قدر درکار ہوتی ہے۔ اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں بڑی کتاب کو بھی قاری کی نظر میں بے وقعت کر دیتی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ ایک ایسی کاوش ہے جسے بہرحال سراہا جانا چاہیے۔
تکلم
شاعرہ: تبسم شیروانی
صفحات: 128
قیمت : 260 روپے
ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ روڈ، لاہور
زیر تبصرہ کتاب تبسم شیروانی کی شاعری کا اولین مجموعہ ہے جو سترکے قریب آزاد نظموں پر مشمل ہے۔ ان نظموں میں نسوانی حسن، خیالات اور جذبات کی خوشبو رچی ہوئی ہے ۔ شاعرہ کا کہنا ہے کہ میرے لیے شاعری کتھارسس بھی ہے اور تلاش ِ ذات کا سفر بھی۔ان نظموں کے مطالعے سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ شاعرہ تلاش ِ ذات کے سفر پر ہے۔ ذاتی مشاہدات و تجربات نے ان کی شاعری کو وقیع بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل کے بقول ’’ ان نظمو ںکے مطالعے سے قاری کو پہلا تاثر تو یہ ملتا ہے کہ ان کا طرز احساس عہد جدید سے لگا کھاتا ہے۔
ان کے ہاں قید اور آزادی کی متضاد کیفیات کے درمیان کشمکش دکھائی دیتی ہے، وہ اپنے ظاہر و باطن میں موجود بُعد کو اپنے تخلیقی تجربے میں حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ‘‘َ۔ اور یہی کتھارسس ہے ۔ پروین سجل کا کہنا ہے کہ ’’ تکلم کی شاعری فکر انگیز ہے جس سے شاعرہ کی سوچ اپنی راہ متعین کرتی دکھائی دیتی ہے ‘‘۔ خوبصورت سرورق کے ساتھ یہ مجموعہ دلکش بھی ہے اور دیدہ زیب بھی۔
رت جگوں کا سفر
شاعر : شبیر ناقد
صفحات: 144
قیمت: 500/ روپے
ناشر : اردو سخن ڈاٹ کام، پاکستان
غزلوں، نظموں اور قطعات پر مشتمل یہ مجموعہ شاعر اور ادیب شبیر ناقد کا نتیجہ ء فکر ہے ۔ وہ اس سے پہلے درجن بھر شعری کتب شائع کرچکے ہیں ۔ا س کتاب میں چھوٹی بحراور سادہ پیراہن میں غزلیں روائتی مضامین کے ساتھ موجود ہیں ۔ شبیر ناقد کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے ان کی شاعری میں عشق و محبت کے روائتی مضامین بہ کثرت ملتے ہیں، تاہم خیالات میں وہ گہرائی اور گیرائی نظر نہیں آئی جس کی توقع شاعری کے کسی نئے مجموعے سے رکھی جاسکتی ہے۔
تاہم کتاب کے ناشر کا ماننا ہے کہ ’’ شبیر ناقد عہدِ موجود کے کہنہ مشق، ممتاز اور اپنے ہنر میں مخلص شاعر ہیں جو ریاضت کے مسلسل عمل سے نت نئے اظہاری پیرائے اور قلبی وارداتوں کے سراغ تلاش کرتے رہتے ہیں، سادہ مگر جاندار لفاظی ان کا وطیرہ ہے جبکہ خوبصورت رومانوی فضا کی تعمیر میں بھی انہیں ملکہ حاصل ہے ‘‘۔کتاب کے آخری صفحات پرآزاد نظموں کے علاوہ بچوں کے لیے دو نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں جن میں سے ایک ان کے اکلوتے بیٹے ’’کاوش بیٹا ‘‘ اور دوسری ’’ الائیڈ بنک تونسہ شریف‘‘ کے عنوان سے ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zFNRtc
No comments:
Post a Comment